آج کے کالمزفیچر کالمزکالمز

کامیاب اور باکمال لوگوں سے مثبت تاثر لیجیے

ایک کامیاب شخص کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اپنے آپ میں اصلاح لانے کا عمل، اس کی ذمہ داری اور فرض ہے ۔ وہ اصلاح کا یہ عمل اپنی ذات سے شروع کرتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ وہ اپنی ذات کی او ملاح وہ خود ہی) کر سکتا ہے۔“ کیمز ولسن
آج کی اس دنیا میں مختلف ذرائع ابلاغ و اطلاعات، ہمارے والدین، ہمارے سکول اور ہمارا معاشرہ ہمیں یہ سبق پڑھاتا اور سکھاتا ہے کہ ہمارے لیے ہر کام ناممکن ہے، ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔ یہ قطعی غلط اور بے بنیاد نظریہ ہے، اس خیال میں قطعی کوئی صداقت نہیں ہے۔ بچپن ہی میں ہمیں اس قدر منفی اور گمراہ کن تربیت تعلیم علم اور معلومات فراہم کر دی جاتی ہے کہ ان سے نجات حاصل کرنے اور مثبت اور تعمیری تربیت، تعلیم، علم اور معلومات اپنانے کے لیے ہمیں دوسروں لوگوں سے مسلسل حوصلہ افزائی اور تاثر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ایک ہفتہ داربی تربیتی پروگرام میں شرکت کافی نہیں ہے۔ ہفتے میں ایک کتاب کا مطالعہ بھی مناسب نہیں ہے۔ کامیاب لوگوں کا شیوہ اور وطیرہ یہ ہے کہ وہ ہر روز مختلف شعبوں کے ماہرین سے حوصلہ افزائی پرمبنی اور تحریکی اسباق سنتے ہیں اور وہ یہ کام ہر جگہ، اپنی کار میں، اپنے دفتر میں صرف پندرہ منٹ انجام دیتے ہیں۔ ہر اس چیز کے متعلق معلومات اور علم حاصل کر لیجیے جس کی آپ کو ضرورت ہو ہر شخص تقریباً ہر روز اوسطاً تمیں منٹ سفر میں گزارتا ہے یعنی پانچ سالوں میں ایک ہزار دوسو پچاس گھنٹے سفر ہی میں گزر جاتے ہیں اور یہ وقت اس وقت کے برابر ہے جس میں آپ کسی کالج میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بہر حال اگر آپ اپنی کار میں سفر کر رہے ہوں، ریل گاڑی میں سوار ہوں ، موٹر سائیکل چلا رہے ہوں، دوڑ رہے ہوں، کوئی سی ڈی سن رہے ہوں، آپ اس دوران اپنی ضرورت کے مطابق اپنے علم میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ آپ مختلف قسم کی معلومات اور علم حاصل کرنے کے ضمن میں خود میں جذبہ اور ولولہ پیدا کر سکتے ہیں، کوئی زبان سیکھ سکتے ہیں، انتظامی مہارتیں حاصل کر سکتے ہیں ، مصنوعات فروخت کرنے کے طریقے سیکھ سکتے ہیں ، ابلاغی مہارتوں کو بہتر بنا سکتے ہیں، اپنے بدن کو مجموعی طور پر صحت مند رکھنے کے علاج ڈھونڈ سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ آپ مختلف ذرائع اور کتب کے ذریعے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے کامیاب ترین افراد کی کامیابی کے راز تلاش کر سکتے ہیں۔
صبح چار بجے وہ جاگ رہا تھا
آپ اپنی زندگی میں کس طرح کامیاب لوگوں سے حوصلہ افزائی اور مثبت تاثیر حاصل کر سکتے ہیں ، ذیل میں ملاحظہ فرمائیے:
1989ء میں بظاہر جیف آرک کی زندگی بہت اچھی دکھائی دے رہی تھی۔ وہ ایک کرائے سکول چلا رہا تھا اور ایک کامیاب شادی شدہ زندگی سے لطف اندوز ہور ہا تھا۔ وہ ایک 4 سالہ بیٹی اور ایک ماہ کے بیٹے کا باپ تھا لیکن در حقیقت اندرونی طور پر وہ اپنی زندگی کو ایک نا معلوم خلا محسوس کر رہا تھا۔ اس کی ہمیشہ سے یہ خواہش تھی کہ وہ ایک ڈرامہ نگار اور فلم نگار بنے لیکن اس کی ابتدائی کوششیں کامیاب نہ ہوئیں اور اس نے اپنے کنبے کے لیے خوردونوش کا انتظام کرنے کے لیے اپنی توجہ ایک دوسرے کاروبار ( پیشے ) کی طرف مبذول کر لی۔
ایک رات کا ذکر ہے کہ وہ باوجود کوشش کے سونہ پایا حتی کہ صبح کے چار بج گئے لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ سوچنے لگا: ”میرا اچھا اور منافع بخش کاروبار تو ہے لیکن یہ میری وہ منزل نہیں ہے جسے میں حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے اعتراف کر لینا چاہیے کہ مجھے اپنی زندگی میں بیشمار اور بڑی مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑا جن کے باعث میرے دل کو ٹھیس پہنچی ۔ ایک مصنف کی حیثیت سے مجھے یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ میں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی لیکن پھر بھی ناکام رہا اور ان ناکامیوں سے سبق حاصل کرنے کے لیے مزید کچھ نہیں ہے اور اب ممکن ہے کہ میرے کامیاب ہونے کے امکانات اور مواقع پیدا ہو جائیں اور میں دیکھوں کہ اس میں میرے لیے کیا سبق پوشیدہ ہیں۔ اس دفعہ مجھے اپنا مطلوبہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ایک ٹھوس کوشش کرنا ہوگی اور یہ نہیں کرنا ہو گا کہ میں محض یہ اندازہ لگانے کے لیے صبح کے چار بجے تک جاگتا رہوں کہ مجھے اپنی زندگی میں کیا کرنا چاہیے یہ نہ ہو کہ میرے بچے مجھ سے پوچھنا شروع کر دیں : ” ابا جان میں نے سنا تھا کہ آپ مصنف بننا چاہتے تھے، کیا ہوا تھا ؟ لیکن اب میں اپنے بچوں کے سوالات کا سامنا کر سکتا ہوں۔ میں ان لوگوں کے مانند نہیں ہو سکتا جو تمام زندگی اپنے بچوں کو نصیحت تو کرتے رہتے ہیں لیکن خود کچھ نہیں کرتے۔ کس برتے پر میں انہیں نصیحت کروں ؟ اگر میں اپنے خوابوں کو عملی شکل میں نہیں ڈھال سکتا تو پھر میں اپنے بچوں سے کیسے کہہ سکتا ہوں کہ میں بھی اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے کوشش کریں۔
جیف نے اسی وقت دو فیصلے کیے جو اس کی زندگی میں انقلابی تبدیل لا سکتے تھے۔ اس نے فون اٹھایا اور اپنے مطلوبہ مقصد ینی ڈرامہ اور فلم نگار بننے کے ضمن میں معلومات مواد منگوانے کے لیے احکامات جاری کر دیئے۔ پھر اس نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ جب یہ معلوماتی اور امدادی معلومات اس کے پاس آجائیں گی اور اگر وہ کسی بھی کام کی ہوئیں تو وہ ان معلومات اور ہدایات کے مطابق عمل کرے گا اور وہ پھر اپنی صلاحیت اور مہارت کو تصنیف و تالیف کی دنیا میں واپس آنے کے لیے اجازت نامے کی حیثیت سے استعمال کرے گا۔
جب معلوماتی اور امدادی معلومات پر مبنی پروگرام اس کے پاس پہنچ گیا تو اس نے اپنے ساتھ وعدے کے مطابق ہر روز ایک سبق پڑھنا شروع کر دیا۔ اس نے اس کے متعلق کسی کو بھی کچھ نہیں بتایا کیونکہ وہ اس معاملے میں خاصا محتاط تھا۔ وہ پہلے نتائج حاصل کرنے کا خواہاں تھا ۔ خوش قسمتی سے یہ معلومات جیف کی خواہش اور ضرورت کے عین مطابق تھی۔ جب پہلے دن اس نے اپنا پہلا سبق سنا اور پھر پڑھا تو اسے محسوس ہوا کہ اسے تصنیف و تالیف کی طرف واپس چلے جانا چاہیے۔ پھر اس نے اگلے ہی دن اپنے اس ٹائپ رائٹر پر سے گرد جھاڑی جسے اس نے تین سال سے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا، اس نے کرائے سکول ختم کر دیا اور اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے کوشاں ہو گیا۔
جیف کا کہنا تھا کہ اس کے دوست ٹونی کی آواز وہ پہلی آواز تھی جس نے مجھے یہ نہیں کہا کہ میں بہت اونچا خواب دیکھ رہا ہوں۔ اس آواز نے مجھے یہ بھی نہیں کہا کہ تمہاری سوچ بہت ہی زیادہ بلند ہے اور تم بہت ہی زیادہ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہو۔ میرے دوست ٹونی نے کہا کہ تمہیں اپنا مقصد بلند تر رکھنا چاہیے۔ اس وقت میری عمر پینتیس سال ہے اور زندگی میں پہلی بارکسی نے میری حوصلہ افزائی کی ہے کہ میں زیادہ بڑے بڑے خواب دیکھوں، اپنے مقصد کو بلند رکھوں اورخوب سے خوب تر کی تلاش میں رہوں۔
ایک تو پہلے ہی جیف کرائے میں بلیک بیلٹ تھا اور دوسرے ٹونی نے اس کے دل میں عظیم خواب سجانے کا حوصلہ، اعتماد اور ولولہ پیدا کر دیا تھا۔ لہذا جیف نے فلم نگاری کا کام دوبارہ شروع کر دیا۔ اگر چہ کچھ عرصہ پہلے اس نے ایک فلم کےلیے لکھنے کا کام چھ ماہ سے لے کر تین سال میں مکمل کیا تھا لیکن اس نے یہ کام محض ایک ماہ میں مکمل کر لیا !
فلم کے مسودے کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا لیکن کسی نے اسے خریدنے کی طرف توجہ نہ دی۔ بدقسمتی سے اس نے سرد جنگ کے متعلق ایک کہانی لکھی تھی اور یہ 1989 ء کا آخر تھا اور جب اس نے یہ مسودہ ختم کیا تو دیوار برلن گر چکی تھی اور پھر اچانک پچاس سال بعد روی دشمن نہ رہے تھے۔
اس موقعے پر جیف خود سے یہ کہہ سکتا تھا: تمہیں کب یہ احساس ہوگا کہ تم مصنف بننے کے لیے پیدا نہیں ہوئے؟ اور ایک بار پھر اپنی یہ کوشش ترک کر دیتا لیکن اب جبکہ اس نے اپنا رویہ اور طرز بدل لیا تھا، اس نے خود سے ایک نیا سوال کیا : ” تمہاری یہ خواہش کس قدر بری ہے؟ اپنی یہ کوشش ترک کرنے کی بجائے اس نے سوچا کہ وہ اپنی خواہش کی تکمیل کیسے کر سکتا ہے۔ اس نے سوچا کہ اس کے لکھنے میں کوئی خرابی نہیں ہے بلکہ موضوع میں خرابی ہے اور اسے ایک ایسے موضوع کا انتخاب کرنا چاہیے جو سدا بہار ہو اور ہر زمانے میں مقبول ہو اور پھر اسے اپنے سوال کا جواب معلوم ہو گیا کہ ”محبت“ ایک افاقی اور ابدی شے ہے۔ لہذا اس نے سوچا کہ اگر وہ تاریخ کے موضوع سے ہٹ کر محبت کے موضوع پر لکھے جو کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتی ۔
اور پھر جیف نے ایک فلم "Sleepelss in seatle کے لیے کہانی لکھی جسے اس نے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں مکمل کر لیا اور اس کی یہ کہانی تین ماہ سے بھی کم عرصے میں ایک ملین ڈالر کے عوض فروخت ہوگئی اور پھر یہیں پر بس نہیں، اس فلم کو آسکر ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ اگر ایک معمولی در انجے کے معلوماتی پروگرام کے ذریعے ایک شخص فلم کے لیے وہ کہانی لکھ سکتا ہے جسے آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تو آپ اس دنیا میں موجود علم اور معلومات کے بیش بہا خزانے کے ذریعے کیا کچھ حاصل نہیں کر سکتے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button