آج کے کالمزکالمز

“زمین تمہاری ماں ہے، اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔”

ازقلم: زوہیب طاہر خان
ہمارے اردگرد کی فضا دھندلی اور گہری آلودگی میں گھری ہوئی ہے۔ سموگ، جو اب ہمارے موسم سرما کا حصہ بنتی جا رہی ہے، ہوا کو اس قدر آلودہ کر دیتی ہے کہ سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے، بچے، بزرگ اور حتیٰ کہ نوجوان بھی بیمار ہونے لگتے ہیں۔ یہ نہ صرف صحت کے لیے بلکہ ہماری پوری زندگی کے لیے ایک خطرہ ہے۔ سموگ کی چادر جو فضا پر چھا جاتی ہے، اس میں چھپے ہوئے آلودگی کے ذرات ہمارے پھیپھڑوں میں جا کر خطرناک بیماریوں کو جنم دیتے ہیں۔ آنکھوں میں جلن، گلے کی خرابی، سانس کی دشواری، یہ سب ہمارے لیے ایک معمول بنتے جا رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھا اور اس سے بچاؤ کے طریقوں پر غور کیا ہے؟ یہ مسئلہ خود انسان نے اپنے لیے کھڑا کیا ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔

اسلام میں فطرت کے احترام اور اس کی حفاظت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ قرآن میں ہمیں بارہا یہ نصیحت کی گئی ہے کہ زمین پر فساد نہ پھیلاؤ اور اللہ کی تخلیق کی قدر کرو۔ اللہ تعالی نے سورۃ البقرہ میں فرمایا: “یقیناً آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں، رات اور دن کے بدلنے میں، ان کشتیوں میں جو سمندر میں لوگوں کے فائدے کے لیے چلتی ہیں، اور ان بارشوں میں جو اللہ کی طرف سے آسمان سے نازل ہوتی ہیں اور زمین کو زندہ کرتی ہیں، بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔” سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے ان نشانیوں کو سمجھا؟ زمین، آسمان، درخت، اور ہوائیں، سب اللہ کی نشانی ہیں۔ کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم ان نشانیوں کی حفاظت کریں اور زمین کو آلودگی سے بچائیں؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ “زمین تمہاری ماں ہے، اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔” زمین کو ماں کا درجہ دیا گیا ہے، مگر افسوس کہ ہم نے اپنی “ماں” کو دھوئیں اور فضلہ میں ڈھک دیا ہے۔ گاڑیوں کا بے تحاشا استعمال، کارخانوں کا بے قابو دھواں، اور صنعتی فضلہ سب اس ماں کی پاکیزگی کو برباد کر رہے ہیں۔ اسلام ہمیں فطرت کے ساتھ ایک مقدس تعلق قائم کرنے کی تعلیم دیتا ہے، مگر ہم نے اس سے انحراف کیا اور خود کو ہی نقصان پہنچایا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “صفائی نصف ایمان ہے۔” مگر کیا ہم نے صفائی کا یہ اصول اپنایا؟ فضائی آلودگی اور سموگ کی صورت میں ہم نے اپنے ایمان کے اس نصف حصے کو برباد کر دیا ہے۔ ہم فضا کو اتنا گندہ کر چکے ہیں کہ سانس لینا دشوار ہو گیا ہے۔ اگر ہم اپنے ماحول کا خیال نہ رکھیں، تو یہ ہمارے لیے وبال جان بن جائے گا۔ سموگ کا مسئلہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے ہر عمل کے اثرات ہوتے ہیں، اور ہمیں ان اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اللہ تعالی نے ہمیں سکھایا کہ اسراف نہ کرو۔ “کھاؤ اور پیو، لیکن اسراف نہ کرو، کیونکہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔” کیا ہم نے گاڑیوں، بجلی اور توانائی کے بے جا استعمال میں اسراف نہیں کیا؟ ہم نے اپنے آس پاس کے ماحول کو برباد کر دیا، پانی کو ضائع کیا، فضا کو دھوئیں سے بھر دیا، اور اس نتیجے میں سموگ جیسی آفت کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسلام ہمیں ایک متوازن زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے، مگر ہم نے اپنی ضروریات سے زیادہ خرچ کرنا شروع کر دیا اور اللہ کے اس حکم کو نظرانداز کیا۔

اسلامی تعلیمات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ فطرت اور ماحول کی حفاظت ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: “تم سب ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں، اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔” ہمیں اپنے ارد گرد کے ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لیے نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہمیں اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہوگی، صنعتوں میں بہتر معیار کے فلٹر لگانے ہوں گے، گاڑیوں کا استعمال کم کرنا ہوگا اور درخت لگانے کی تحریک کو عام کرنا ہوگا۔ علماء کرام، مبلغین اور عمائدین ملت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ دیگر بھلائی اور فلاحی کاموں کی ترغیب کے ساتھ ساتھ عوام الناس کی توجہ اس اہم جانی مسئلہ اور اس سے نمٹنے کے لیے اسلام کی روشنی میں حل کی جانب مبذول کروائیں۔

سموگ کا مسئلہ محض ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ہمارے ایمان کا بھی حصہ ہے۔ اگر ہم اس زمین کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں تو یہ اللہ کے حکم پر عمل اور اس کی رضا کے حصول کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں میں تبدیلی لائیں اور اللہ کی اس زمین کو صاف اور خوبصورت بنائیں تاکہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں ایک صحت مند اور پاکیزہ ماحول میں زندگی گزار سکیں۔ یہ ایک چیلنج ہے، مگر اس کا سامنا ہم سب کو مل کر کرنا ہے، کیونکہ زمین ہماری امانت ہے اور اس کی حفاظت ہمارا فرض۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button