٭نجکاری واقعی فائدہ مند یا صرف چند لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا ذریعہ؟*


ازقلم: زوہیب طاہر خان
میرے گزشتہ کالم “قومی اثاثوں کی نجکاری ۔۔۔۔” کی اشاعت کے بعد کئی قارئین نے نجکاری کے حق میں دلائل پیش کیے اور کہا کہ قومی اداروں میں مالی بحران، سیاسی مداخلت، اور بدعنوانی کے مسائل کی وجہ سے ان کی بحالی ناممکن ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق، نجکاری ہی واحد حل ہے جس سے حکومت مالی فوائد حاصل کر سکتی ہے۔ لیکن قارئین کے ردعمل کو مدنظر رکھتے ہوئے، آج کے کالم میں یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ کس طرح نجکاری مستقبل قریب میں ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اور کیسے ہم ان قومی اداروں کو بحالی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔
نجکاری کو اکثر فوری مالی بحران سے نمٹنے کا مؤثر طریقہ سمجھا جاتا ہے، اور اس حوالے سے کئی ممالک کے تجربات بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ 1980 کی دہائی میں نیوزی لینڈ اور برطانیہ جیسے ممالک نے بڑے پیمانے پر نجکاری کی، اور ابتدا میں یہ فیصلے کامیاب دکھائی دیے۔ لیکن طویل مدت میں ان اقدامات نے بنیادی خدمات میں کمی، عوامی خدمات کے معیار میں گراوٹ، اور قیمتوں میں اضافے کو جنم دیا۔ ان ممالک کی مثالیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ نجکاری کے فوری فوائد کے باوجود اس کے طویل مدتی اثرات عوامی خدمات اور معیشت پر منفی پڑ سکتے ہیں۔ یہ تجربات ثابت کرتے ہیں کہ قومی اثاثے فروخت کر کے ملک کی ترقی کو مستقل بنیادوں پر نہیں بڑھایا جا سکتا۔
پاکستان کے معاملے میں پی آئی اے جیسے قومی ادارے ایک وقت میں فخر کا باعث تھے۔ ماضی میں پی آئی اے کو جدید ترین ائیرلائنز میں شمار کیا جاتا تھا، لیکن بدانتظامی، سیاسی مداخلت، اور بدعنوانی نے اسے زوال کی راہ پر ڈال دیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس ادارے کی بحالی ممکن نہیں؛ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اگر سنجیدہ اقدامات اٹھائے تو ان مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً، شفافیت کو فروغ دیا جائے، بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑا جائے، اور انتظامی اصلاحات کو اپنایا جائے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا صرف نجکاری ہی واحد حل ہے یا ہم اپنے قومی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے کوئی اور راستہ اختیار کر سکتے ہیں؟
آج کل دنیا کے کئی ممالک نے اپنے قومی اداروں کی بحالی کے لیے بہتر حکمت عملی اپنائی ہے۔ سنگاپور اور چین جیسے ممالک نے اپنی عوامی خدمات کو بہتر بنانے، شفافیت اور کارکردگی میں اضافہ کرنے، اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کیے۔ سنگاپور میں حکومتی اصلاحات نے قومی اداروں کو مستحکم کیا اور آج وہاں کی معیشت ایک مثال بنی ہوئی ہے۔ اسی طرح چین نے بھی عوامی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیے انتظامی اصلاحات اپنائیں۔
چین کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس نے نجکاری کے بجائے اداروں کی کارکردگی اور شفافیت بڑھانے کے لیے انتظامی اصلاحات اپنائیں اور کامیاب نتائج حاصل کیے۔ چین نے 1978 میں اپنے ادارتی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے ایک سلسلہ وار حکمت عملی اپنائی، جس کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں:
1. سرکاری اداروں کی کارکردگی میں بہتری اور تنظیم نو:
چین نے سب سے پہلے اپنے سرکاری اداروں کو کاروباری اصولوں کے تحت چلانے کی طرف توجہ دی۔ اس کے تحت اداروں کو خودمختاری دی گئی تاکہ وہ آزادانہ فیصلے لے سکیں اور مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق کام کر سکیں۔ چین نے ان اداروں کے سربراہان کے لیے کارکردگی کے اہداف مقرر کیے، جس سے ان کی کارکردگی میں بہتری اور جوابدہی میں اضافہ ہوا۔ اس اقدام نے سرکاری اداروں کو منافع بخش بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
2. مخلوط ملکیت (Mixed Ownership) ماڈل اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ:
چین نے نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری کا نظام اپنایا جسے مخلوط ملکیت ماڈل کہا جاتا ہے۔ اس ماڈل کے تحت سرکاری اداروں میں نجی شعبے کی شمولیت ممکن بنائی گئی جس سے اداروں میں سرمایہ کاری، انتظامی تجربہ اور جدیدیت کا اضافہ ہوا۔ اس سے سرکاری اداروں کی کارکردگی میں بہتری آئی اور وہ مالی طور پر مستحکم ہوئے۔
3. بدعنوانی کے خاتمے اور شفافیت کے اقدامات:
چین نے بدعنوانی کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے اور اس سلسلے میں مرکزی انضباطی کمیشن (Central Commission for Discipline Inspection) کے ذریعے نگرانی کی۔ اس کمیشن نے بدعنوان عناصر کے خلاف سخت کاروائیاں کیں، جس سے اداروں میں شفافیت اور جوابدہی کا نظام بہتر ہوا۔ اس مہم نے عوامی اعتماد کو بحال کیا اور اداروں میں ایمانداری اور دیانتداری کو فروغ دیا۔
4. مارکیٹ پر مبنی معیشت کے اصول:
چین نے اپنے سرکاری اداروں کو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق کام کرنے کی آزادی دی، جس سے ان اداروں میں مسابقتی ماحول پیدا ہوا اور انہیں عالمی سطح پر مؤثر بنایا گیا۔ حکومت نے قیمتوں اور پیداوار پر اپنا کنٹرول کم کیا تاکہ ادارے بین الاقوامی معیار کے مطابق کام کر سکیں اور ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
5. بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری:
چین نے قومی اداروں کو جدید بنانے کے لیے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی۔ سڑکیں، ریلوے، اور دیگر سہولتیں فراہم کر کے اداروں کو مالی اور انتظامی استحکام بخشا گیا۔ اس سے نہ صرف سرکاری ادارے مضبوط ہوئے بلکہ عوام کو بھی بہتر سہولتیں حاصل ہوئیں۔
چین اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک سے صرف مالی معاونت اور قرضوں کی طلب ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہمیں ان کے تجربات اور انتظامی حکمت عملیوں سے بھی سیکھنا چاہیے۔ یہ ممالک اپنی معیشت کی مضبوطی، اداروں کی بحالی، اور عوامی خدمات کی بہتری کے لیے جو اقدامات اٹھاتے ہیں، ان سے ہماری رہنمائی ہو سکتی ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان تجربات کا بغور جائزہ لے اور ان سے سیکھ کر اپنے قومی اداروں کو بہتر بنانے کے لیے مؤثر حکمت عملی تیار کرے۔ صرف قرضوں کے حصول کی بجائے، ہمیں ان دوست ممالک کے ترقی کے ماڈلز اور انتظامی اصلاحات کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے اقتصادی چیلنجز کا مؤثر جواب دے سکیں اور اپنی معیشت کو مستحکم کر سکیں۔ یہ ایک طویل المدتی وژن ہوگا جو ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرے گا اور ہمیں ایک مضبوط قوم بنانے میں مدد دے گا۔


