آج کے کالمزفیچر کالمزکالمز

تاریخی شہر لاہور، آج دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار

ازقلم: زوہیب طاہر خان

تاریخی شہر لاہور جو کبھی باغات اور اپنی ثقافتی خوبصورتی کے لیے مشہور تھا، آج دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کی فضا میں ہر طرف پھیلی ہوئی زہریلی ہوا اور گرد و غبار نے سانس لینا مشکل بنا دیا ہے، اور اس آلودگی کا شہریوں کی صحت پر شدید منفی اثر پڑ رہا ہے۔ موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی سموگ کی ایک موٹی تہہ شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، جس سے خصوصاً بچوں اور بزرگوں میں سانس کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ ان حالات نے یہ بات عیاں کر دی ہے کہ تخت لاہور، یعنی پنجاب حکومت کی جانب سے اب تک کیے گئے اقدامات ناکافی ہیں اور ان میں مستقل مزاجی کا فقدان ہے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے فضائی آلودگی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے میٹنگ پر میٹنگ ہو رہی ہیں۔ مارکیٹوں، دفاتر، فیکٹریوں اور تعلیمی اداروں کی عارضی بندش کی صورت میں سمارٹ لاک ڈاؤن جیسے اقدامات زیر غور ہیں۔ ہر سال موسم سرما میں ان اقدامات کو دہرایا جاتا ہے، مگر مستقل بنیادوں پر فضائی آلودگی کو قابو میں لانے کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔ ماضی میں بھی سکولوں کی بندش ہوئی ہے، اور اس سال بھی سننے میں آ رہا ہے کہ یہی پریکٹس دہرائی جائے گی۔ مگر کیا یہ وقتی اور نمائشی اقدامات کسی پائیدار حل کی طرف لے جائیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ کروڑوں روپے کے اشتہارات اور عوام کو وقتی یقین دہانیاں سموگ کو ختم نہیں کر سکتیں۔ صنعتوں اور اینٹوں کے بھٹوں پر عارضی پابندیاں بھی عائد کی جاتی ہیں، لیکن یہ اقدامات بھی وقتی ثابت ہوتے ہیں۔ جیسے ہی پابندیاں ختم ہوتی ہیں، فضا میں آلودگی دوبارہ بڑھنے لگتی ہے۔ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) اور محکمہ ویسٹ مینجمنٹ، جو شہر کی صفائی اور ترقی کے اہم ادارے ہیں، بھی اس مسئلے کے حل میں خاطر خواہ کردار ادا نہیں کر رہے۔ ایل ڈی اے نے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے مختلف منصوبے تو ترتیب دیے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر محض کاغذی ثابت ہوئے ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں سبزہ اور درخت لگانے کے منصوبے دستاویزات تک محدود ہیں، جبکہ حقیقی سطح پر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ، شہر میں ٹریفک اور غیر قانونی تعمیرات کی وجہ سے بھی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے، مگر ایل ڈی اے ان مسائل پر سنجیدگی سے توجہ دینے کے بجائے کاغذی کارروائیوں کو ترجیح دیتا نظر آتا ہے۔

لاہور ویسٹ مینجمنٹ بھی اس ضمن میں غیر مؤثر ثابت ہوا ہے۔ لاہور کے کئی دیہی اور مضافاتی علاقوں میں کچرا جمع کرنے کا نظام ناکافی ہے۔ ان علاقوں میں عملہ یا تو مقررہ وقت پر کچرا نہیں اٹھاتا، یا بعض جگہوں پر تو سرے سے کچرا اٹھایا ہی نہیں جاتا۔ اس صورتحال کے باعث لوگوں کے پاس کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا آسان حل یہی بچتا ہے کہ وہ اسے آگ لگا دیتے ہیں۔ کوڑے کو جلانے سے ماحول میں زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں، جو نہ صرف فضائی آلودگی میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ شہریوں کی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ اس کے ساتھ شہر کے مضافات میں چھوٹے کارخانوں میں ایندھن کے طور پر گیس کے بجائے پرانے ٹائرز اور دیگر غیر معیاری مواد استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کارخانوں میں ان اشیاء کو جلانے سے زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں، جو نہ صرف فضا کو آلودہ کر رہی ہیں بلکہ شہریوں کے لیے سنگین صحت کے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ حکومت نے ان کارخانوں کے اخراج کو کنٹرول کرنے کے قوانین تو بنائے ہیں، مگر ان پر عملدرآمد میں سنجیدگی کا فقدان ہے۔ ماحولیات کے کنٹرول کے ذمہ دار افسران کا کام اکثر صرف گاڑیوں میں وزٹ تک محدود رہتا ہے، اور حقیقی نگرانی کی کمی ہے۔ اگر ان کارخانوں پر سختی سے نگرانی کی جائے اور غیر قانونی ایندھن کے استعمال پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں تو آلودگی میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔ عوامی آگاہی کے حوالے سے بھی کچھ مہمات چلائی گئی ہیں، مگر ان کی رسائی اور اثر محدود ہے۔ عوام کو آلودگی کے مضر اثرات اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے، لیکن ان مہمات کا عملی اثر اس وقت تک محدود رہتا ہے جب تک کہ ہر شہری اس ذمہ داری کو اپنے طور پر نہیں اپناتا۔ لاہور جیسے بڑے اور گنجان آباد شہر کو فضائی آلودگی سے نجات دلانے کے لیے تخت لاہور کو ایک مستقل اور مؤثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتوں پر مستقل نگرانی کرے اور ان کے اخراجات کو کنٹرول کرنے کے سخت قوانین وضع کرے۔ صاف توانائی کے ذرائع جیسے سولر اور ہوا سے حاصل ہونے والی توانائی کا استعمال بڑھایا جائے تاکہ آلودگی میں کمی آسکے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنانا اور ماحول دوست گاڑیوں کی حوصلہ افزائی سے بھی شہری اپنی ذاتی گاڑیوں کے استعمال کو کم کر سکتے ہیں۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ شہر میں دھواں چھوڑتے لاکھوں چنگچی رکشوں کو ہمیشہ کے لیے بند کرنا پڑے گا، یا کم از کم انہیں ماحول دوست ایندھن پر منتقل کرنے کے لیے واضح حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ اگر یہ اقدامات مستقل مزاجی کے ساتھ کیے جائیں تو ہی شہر کی فضا کو آلودگی سے بچایا جا سکتا ہے، ورنہ ہر سال یہی وقتی اقدامات دہرائے جائیں گے اور شہری اسی آلودہ ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ شہر کو فضائی آلودگی سے بچانے کے لیے درخت لگانے کی بھی بڑے پیمانے پر ضرورت ہے تاکہ فضا کو قدرتی طور پر صاف کیا جا سکے۔ عوام کو بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا کہ وہ فضائی آلودگی میں کمی لانے کے لیے اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ چھوٹے چھوٹے اقدامات، جیسے پودے لگانا، گاڑیوں کا کم استعمال، اور کوڑے کو صحیح طریقے سے ٹھکانے لگانا، ایک مثبت فرق پیدا کر سکتے ہیں۔
سموگ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے جو وقت کے ساتھ مزید بگڑتا جا رہا ہے۔ تخت لاہور کو فوری اور مستقل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شہر کے شہری صاف اور صحت مند فضا میں سانس لے سکیں۔ عارضی اقدامات سے مسئلہ حل نہیں ہوگا؛ بلکہ اس کے لیے ایک جامع، منظم اور پائیدار حکمت عملی ہی اس شہر کو آلودگی سے نجات دلا سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button